By
Maulana Wahiduddin Khan
ذريعه: الرساله، فروري 2017

قرآن کی سورہ نمبر 6 میں ایک ساتھ 18 نبیوں کا ذکر ہوا ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہے: أُولَئِکَ الَّذِینَ ہَدَى اللَّہُ فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہْ (الانعام:90)۔ یعنی یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی، پس تم بھی ان کے طریقہ پر چلو۔

قرآن کی اس آیت میں ھدی سےمراد اصلاً عقیدہ نہیں ہے، بلکہ طریقہ کار (method) ہے۔ اللہ کی طرف سے جو پیغمبر دنیا میں آئے، وہ سب یکساں طور پر عقیدہ توحید کے داعی تھے۔ مگر طریقہ کار کا تعلق حالات سے ہوتا ہے۔ اس لیے طریقہ کا ر کے معاملے میں وہ مختلف تھے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ کسی نبی سے جو طریقہ کا ر ثابت ہو، وہ یکساں طور پر خدائی طریقہ ہے۔ کسی پیغمبر نے اپنے زمانے میں حالات کے اعتبار سے جو طریقہ کار اختیار کیا۔ اگر اسی قسم کے حالات دوبارہ تاریخ میں پیدا ہوں تو دوبارہ وہی طریقہ قابل اختیار ہوجائے گا۔

مثال کے طور پر اسرائیلی پیغمبر حضرت موسیٰ کو لیجیے۔ ان کا زمانہ تیرھویں صدی قبل مسیح کا زمانہ ہے۔ وہ قدیم مصر میں آئے۔ اس وقت وہاں فرعون (Pharaoh) کی حکومت تھی۔ حضرت موسیٰ اللہ کے حکم سے فرعون کے دربار میں گئے۔ وہاں انھوں نے بادشاہ کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی۔ بادشاہ ان کی بات سن کر غصہ ہوگیا۔ اور کہا کہ میں تم کو قتل کردوں گا(غافر:26) ۔لیکن پھر فرعون اس پر راضی ہوگیا کہ فوجی میدان کے بجائے، وہ پر امن مقابلے کے میدان میں حضرت موسی کا جواب دے۔

حضرت موسی نے فوراً اس تجویز کو مان لیا۔ انھوں نے یہ نہیں کہا کہ میں تو تمھارا مقابلہ تلوار کے میدان (battlefield) میں کروں گا۔ چناں چہ دونوں فریق کے درمیان یہ مقابلہ پر امن میدان میں ہوا۔ حضرت موسی اس مقابلہ میں پوری طرح کامیاب رہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے لیے پرامن میدان میں عمل کرنے کا موقع پوری طرح کھلا ہوا ہے۔ ایسی حالت میں اگر وہ پر امن میدان کو چھوڑ کر تشدد کے میدان میں اپنا عمل شروع کریں تو یہ پیغمبر کے نمونے کے سراسر خلاف ہوگا۔

حضرت موسی کے زمانے میں فرعو ن نے یہ کیا تھا کہ وہ پیغمبر کا مقابلہ فوجی میدان کے بجائے پیس فل میدان میں کرے۔اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس مقابلے میں حضرت موسی کو مکمل کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کی تصویر قرآن میں ان الفاظ میں دی گئی ہے: فَإِذَا ہِیَ تَلْقَفُ مَا یَأْفِکُونَ ( 7:117) ۔

موجودہ زمانے میں اس نوعیت کا واقعہ زیادہ بڑے پیمانے پر پیش آیا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، موجودہ زمانے میں اقوامِ متحدہ (UNO) نے تمام قوموں کے اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ قومی تعلقات میں اب جنگ مکمل طور پر ایک متروک طریقہ (abandoned method) ہے۔ اب تمام قومی نزاعات کا فیصلہ صرف پرامن گفت وشنید (peaceful negotiation) کے ذریعے کیا جائے گا۔ معاملے کے کسی فریق کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ جنگ کے ذریعے تصفیہ کرنے کی کوشش کرے۔

ایسی حالت میں موجودہ زمانے کے اہل ایمان پر فرض کے درجے میں ضروری ہوگیا ہے کہ وہ جنگ کا طریقہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں۔ وہ ہرمعاملے کو پر امن گفت و شنید کے ذریعے طے کرنے کی کوشش کریں۔

موجودہ زمانے کے جو مسلمان جنگ کا طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں، وہ ایسا ہی ہےجیسے حضرت موسی کے سامنے امن کا طریقہ کھلا ہوا تھا۔ مگر اس کو چھوڑ کر وہ یہ کہتے کہ میں تو تلوار کے ذریعے فرعون اور اس کے گروہ کا مقابلہ کروں گا۔ اگر حضرت موسی ایسا کرتے تو ان کو اللہ کی مدد حاصل نہ ہوتی۔ کیوں کہ اللہ کی مدد اللہ کے طریقے کو اختیار کرنے پر آتی ہے، کسی اور طریقے پر نہیں۔

موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی کوششیں مسلسل طور پر ناکام ہورہی ہیں۔ اس کا سبب یہی ہے کہ انھوں نے اپنی کوشش کے لیے اللہ کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ اس لیے وہ اللہ کی مدد سے محروم ہوگیے۔ اگر مسلمان کامیابی چاہتے ہیں تو ان کو تشدد کا طریقہ چھوڑ کر امن کا طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔

Category/Sub category

Related Tags

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom